حضرت یوسف علیہ السلام کا صبر و تحمل

سورة يوسف آیات۵۰ـ۵۷

وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوۡلُ قَالَ ارۡجِعۡ اِلٰی رَبِّکَ فَسۡـَٔلۡہُ مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ ﴿۵۰﴾

اور کہا بادشاہ نے لے آؤ اسکو میرے پاس پھر جب پہنچا اس کے پاس بھیجا ہوا آدمی کہا لو ٹ جا اپنے خاوند (مالک) کے پاس اور پوچھ اس سے کیا حقیقت ہے ان عورتوں کی جنہوں نے کاٹے تھے ہاتھ اپنے [۷۳] میرا رب تو ان کا فریب سب جانتا ہے [۷۴]

And (when this person went back and told the king about the interpretation of the dream), the king said, “Bring him to me.” So, when the messenger came to Yūsuf, he said, “Go back to your lord and ask him, ‘What is the case of the women who cut their hands?’ Surely, my Lord knows well their guile.”

قَالَ مَا خَطۡبُکُنَّ اِذۡ رَاوَدۡتُّنَّ یُوۡسُفَ عَنۡ نَّفۡسِہٖ ؕ قُلۡنَ حَاشَ لِلّٰہِ مَا عَلِمۡنَا عَلَیۡہِ مِنۡ سُوۡٓءٍ ؕ قَالَتِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ الۡـٰٔنَ حَصۡحَصَ الۡحَقُّ ۫ اَنَا رَاوَدۡتُّہٗ عَنۡ نَّفۡسِہٖ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۵۱﴾

کہا بادشاہ نے عورتوں کو کیا حقیقت ہے تمہاری جب تم نے پھسلایا یوسف کو اسکے نفس کی حفاظت سے [۷۵] بولیں حاشا للہ ہم کو معلوم نہیں اس پر کچھ برائی بولی عورت عزیز کی اب کھل گئ سچی بات میں نے پھسلایا تھا اسکو اس کے جی سے اور وہ سچا ہے [۷۶]

He (the king) said, “What was your case, O women, when you seduced Yūsuf?” They said, “God forbid, we know of no evil in him.” The governor’s wife said, “Now the truth has come to light. I did seduce him, and he is surely truthful.”

ذٰلِکَ لِیَعۡلَمَ اَنِّیۡ لَمۡ اَخُنۡہُ بِالۡغَیۡبِ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِیۡ کَیۡدَ الۡخَآئِنِیۡنَ ﴿۵۲﴾

یوسف نے کہا یہ اس واسطے کہ عزیز معلوم کر لیوے کہ میں نے اسکی چوری نہیں کی چھپ کر اور یہ کہ اللہ نہیں چلاتا (چلنے نہ دیتا) فریب دغا بازوں کا [۷۷]

(Then Yūsuf said), “That was because he (the governor) may know that I did not betray him in his absence, and that Allah does not lead the guile of betrayers to success.

وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵۳﴾

اور میں پاک نہیں کہتا اپنے جی کو بیشک جی تو سکھلاتا ہے برائی مگر جو رحم کر دیا میرے رب نے بیشک میرا رب بخشنے والا ہے مہربان [۷۸]

And I do not absolve my inner self of blame. Surely, man’s inner self often incites to evil, unless my Lord shows mercy. Certainly, my Lord is the Most-Forgiving, Very-Merciful.”

وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖۤ اَسۡتَخۡلِصۡہُ لِنَفۡسِیۡ ۚ فَلَمَّا کَلَّمَہٗ قَالَ اِنَّکَ الۡیَوۡمَ لَدَیۡنَا مَکِیۡنٌ اَمِیۡنٌ ﴿۵۴﴾

اور کہا بادشاہ نے لے آؤ اسکو میرے پاس میں خالص کر رکھوں اسکو اپنے کام میں [۷۹] پھر جب بات چیت کی اس سے کہا واقعی تو نے آج سے ہمارے پاس جگہ پائی معتبر ہو کر [۸۰]

The king said, “Bring him to me, and I shall employ him purely for myself.” So, when he (the king) talked to him, he said (to Yūsuf), “Today you are with us well-placed, fully trusted.”

قَالَ اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ ۚ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۵﴾

یوسف نے کہا مجھ کو مقرر کر ملک کے خزانوں پر میں نگہبان ہوں خوب جاننے والا [۸۱]
He said, “Appoint me to (supervise) the treasures of the land. I am indeed a knowledgeable keeper.”
نُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۵۶﴾

اور یوں قدرت دی ہم نے یوسف کو اس زمین میں جگہ پکڑتا تھا اس میں جہاں چاہتا [۸۲] پہنچا دیتے ہیں ہم رحمت اپنی جس کو چاہیں اور ضائع نہیں کرتے ہم بدلا بھلائی والوں کا
And thus We gave Yūsuf power in the land. He could settle in it wherever he wished. We extend Our mercy to whomsoever We will, and We do not let the reward of the righteous people to go to waste.
وَ لَاَجۡرُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿٪۵۷﴾
اور ثواب آخرت کا بہتر ہے انکو جو ایمان لائے اور رہے پرہیزگاری میں [۸۳]
And the reward of the Hereafter is surely better for those who believe and constantly observe taqwā.
[۷۳]رہائی کا حکم اور حضرت یوسف علیہ السلام کا صبر و تحمل:

بادشاہ کچھ تو پہلے ہی ساقی کے تذکرے سے حضرت یوسف علیہ السلام کا معتقد ہو گیا تھا۔ اب جو ایسی موزوں و دلنشین تعبیر اور رعایا کی ہمدردی کی تدبیر سنی تو ان کے علم و فضل ، عقل و دانش اور حسن اخلاق کا سکہ اس کے دل پر بیٹھ گیا۔ فورًا حکم دیا کہ ایسے شخص کو میرے پاس لاؤ، تا اس کی زیارت سے بہرہ اندوز ہوں اور اس کے مرتبہ اور قابلیت کے موافق عزت کروں قاصد پیام شاہی لے کر حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ مگر یوسف علیہ السلام کی نظر میں اپنی دینی و اخلاقی پوزیشن کی برتری اور صفائی اعلیٰ سے اعلیٰ دنیوی عزت و وجاہت سے زیادہ مہم تھی۔ آپ جانتے تھے کہ پیغمبر خدا کی نسبت لوگوں کی ادنیٰ بدگمانی بھی ہدیات و ارشاد کے کام میں بڑی بھاری رکاوٹ ہے۔ اگر آج میں بادشاہی فرمان کے موافق چپ چپاتے قید خانہ سے نکل گیا اور جس جھوٹی تمہت کے سلسلہ میں سالہا سال قید و بند کی مصائب اٹھائیں اس کا قطعی طور پر استیصال نہ ہوا تو بہت ممکن ہے کہ بہت سے ناواقف لوگ میری عصمت کے متعلق تردد اور شبہ میں پڑے رہ جائیں اور حاسدین کچھ زمانہ کے بعد ان ہی بے اصل اثرات سے فائدہ اٹھا کر کوئی اور منصوبہ میرے خلاف کھڑا کر دیں۔ عورتوں کے واقعہ کی تحقیق پر اصرار: ان مصالح پر نظر کرتے ہوئے آپ نے حکم شاہی کے امتثال میں جلدی نہ کی بلکہ نہایت صبر و استقلال کا مظاہرہ کرتے ہوئے قاصد کو کہا کہ تو اپنے مالک (بادشاہ) سے واپس جا کر دریافت کر کہ تجھ کو ان عورتوں کے قصہ کی کچھ حقیقت معلوم ہے جنہوں نے دعوت کے موقع پر اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو ان عورتوں کے ناموں کی تفصیل کہاں معلوم ہو گی۔ کہ خیال کیا ہو گا کہ ایسا واقعہ ضرور عام شہرت حاصل کر چکا ہے ۔ اس لئے واقعہ کے ایک ممتاز جز (ہاتھ کاٹنے) کو ظاہر کر کے بادشاہ کو توجہ دلائی کہ اس مشہور و معروف قصہ کی تفتیش و تحقیق کرے۔ غالبًا اب وہ عورتیں بتلا دیں گی کہ تقصیر کس کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیحین کی حدیث میں حضرت یوسف علیہ السلام کے کمال صبر و تحمل کی اس طرح داد دی ہے۔ لَوْ لَبِثْتُ فِی السِّجْنِ مَا لَبِثَ یُوْسُفُ لَاَجَبْتُ الدَّاعِیَ (اگر میں اتنی مدت قید میں رہتا جتنا یوسف علیہ السلام رہے تو بلانے والے کی اجابت کرتا یعنی فورًا ساتھ ہو لیتا) محققین کہتے ہیں کہ اس میں حضرت یوسف علیہ السلام کے صبرو تحمل کی تعریف اور لطیف رنگ میں اپنی عبودیت کاملہ کا اظہار ہے ۔ ہم نے اس مضمون کی تفصیل شرح صحیح مسلم میں کی ہے یہاں اختصار کی وجہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتے
۔
[۷۴]حضرت یوسف علیہ السلام نے "سب کا فریب” فرمایا ، اس واسطے کہ ایک کا فریب تھا اور سب اس کی مددگار تھیں اور اصل فریب والی کا نام شاید حق پرورش کی وجہ سے نہیں لیا۔ حیا کی وجہ سے گول مول فرمایا۔ کیونکہ جانتے تھے کہ اصل حقیقت آخر کھل کر رہے گی ۔ کذا فی ا لموضح
۔
[۷۵]بادشاہ نے دریافت کرنے کا ایسا عنوان اختیار کیا گویا وہ پہلے سے خبر رکھتا ہے تا یہ دیکھ کر انہیں جھوٹ بولنے کی ہمت نہ ہو۔ نیز یوسف علیہ السلام کی استقامت و صبر کا اثر پڑا ہو گا۔ کہ بدون اظہار براءت کے جیل سے نکلنا گوارا نہیں کرتے۔ اور اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ کہہ کر ان کے "کید” کا اظہار فرما رہے ہیں۔ ادھر ساقی وغیرہ نے واقعات سنائے ہوں گے ان سے بھی یوسف علیہ السلام کی نزاہت اور عورتوں کے مکائد کی تائید ملی ہوگی
۔
[۷۶]زلیخا کا اقرار جرم:

سب عورتوں کی متفقہ شہادت کے بعد زلیخا نے بھی صاف اقرار کر لیا کہ قصور میرا ہے ۔ یوسف علیہ السلام بالکل سچے ہیں بیشک میں نے ان کو اپنی جانب مائل کرنا چاہا تھا۔ لیکن وہ ایسے کاہے کو تھے کہ میرے داؤ میں آ جاتے
۔
[۷۷]یعنی اتنی تحقیق و تفتیش اس لئے کرائی کہ پیغمبرانہ عصمت و دیانت بالکل آشکارا ہو جائے اور لوگ معلوم کر لیں کہ خائنوں اور دغابازوں کا فریب اللہ چلنے نہیں دیتا ۔ چنانچہ عورتوں کا فریب نہ چلا۔ آخر حق ، حق ہو کر رہا۔

[۷۸]حضرت یوسف علیہ السلام کا اعلان براءت:

چونکہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنی براءت پر بہت زیادہ زور دیا۔ ممکن تھا کوئی سطحی آدمی اس سے فخر و ناز اور غرور اعجاب کا شبہ کرنے لگتا اس لئے اپنی نزاہت کی حقیقت کھول دی کہ میں کوئی شیخی نہیں مارتا نہ پاک صاف رہنے میں اپنے نفس پر بھروسہ کر سکتا ہوں ۔ محض خدا کی رحمت و اعانت ہے جو کسی نفس کو برائی سے روکتی ہے ۔ یہ ہی رحمت خصوصی عصمت انبیاء علیہم السلام کی کفیل و ضامن ہے ۔ ورنہ نفس انسانی کا کام عمومًا برائی کی ترغیب دینا تھا۔ خدا تعالیٰ کی خصوصی توفیق و دستگیری نہ ہوتی تو میرا نفس بھی دوسرے نفوس بشریہ کی طرح ہوتا اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ سے اشارہ کر دیا کہ نفس امارہ جب توبہ کر کے "لوامہ” بن جائے تو خدا اس کی پچھلی تقصیرات معاف فرما دیتا ہے۔ بلکہ رفتہ رفتہ اپنی مہربانی سے "نفس مطمئنہ” کے درجہ تک پہنچا دیتا ہے۔ (تنبیہ) حافظ ابن تیمیہ اور ابن کثیر ذٰلِکَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْہُ سے غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ تک زلیخا کا مقولہ قرار دیا ہے یعنی زلیخا نے اَنَا رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ کا اقرار کر کے کہا کہ اس اقرار و اعتراف سےعزیز کو یہ معلوم کرانا ہے کہ میں نے اس کی پیٹھ پیچھے کوئی بڑی خیانت نہیں کی۔ بیشک یوسف علیہ السلام کو پھسلانا چاہا تھا۔ مگر میری مراودت ان پر کارگر نہیں ہوئی۔ اگر میں نے مزید خیانت کی ہوتی تو ضرور اس کا پردہ فاش ہو کر رہتا۔ کیونکہ خدا خائنوں کے مکرو فریب کو چلنے نہیں دیتا۔ ہاں میں اپنے نفس کو بری نہیں کرتی ، جتنی غلطی مجھ سے ہوئی اس کا اقرار کر رہی ہوں دوسرے آدمیوں کی طرح نفس کی شرارتوں سے میں بھی پاک نہیں۔ ان سے تو یوسف علیہ السلام جیسا پاکباز انسان ہی محفوظ رہ سکتا ہے۔ جس پر خدا کی خاص مہربانی اور رحمت ہے۔ ابو حیان نے بھی اس کو زلیخا کا مقولہ قرار دیا ہے۔ لیکن لِیَعْلَمَ اور لَمْ اَخُنْہُ کی ضمیریں بجائے عزیز کے یوسف علیہ السلام کی طرف راجع کی ہیں۔ یعنی اپنی خطا کا صاف اقرار اس لئے کرتی ہوں کہ یوسف علیہ السلام کو معلوم ہوجائے کہ میں نے اس کی عدم موجودگی میں کوئی غلط بات نہیں کہی نہ اپنے جرم کو ان کی طرف منسوب کیا ۔ واللہ اعلم
۔
[۷۹]یعنی میرا مشیر خاص رہے گا۔

[۸۰]عزیز مصر سے حضرت یوسف علیہ السلام کی گفتگو:

کچھ پہلے سے معتقد ہو چکا تھا۔ بالمشافہ باتیں سن کر بالکل ہی گرویدہ ہو گیا اور حکم دے دیا کہ آج سے آپ ہمارے پاس نہایت معزز و معتبر ہو کر رہیں گے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "اب عزیز کا علاقہ موقوف کیا اپنی صحبت میں رکھا”
۔
[۸۱]حضرت یوسف علیہ السلام مالیات کے سربراہ:

یعنی دولت کی حفاظت بھی پوری کروں گا اور اس کی آمد و خرچ کے ذرائع اور حساب و کتاب سے خوب واقف ہوں یوسف علیہ السلام نے خود درخواست کر کے مالیات کا کام اپنے سر لیا۔ تا اس ذریعہ سے عامۂ خلائق کو پورا نفع پہنچا سکیں۔ خصوصًا آنے والے خوفناک قحط میں نہایت خوش انتظامی سے مخلوق کی خبر گیری اور حکومت کی مالی حالت کو مضبوط رکھ سکیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام دنیا کی عقل بھی کامل رکھتے ہیں اور یہ کہ ہمدردی خلائق کے لئے مالیات کے قصوں میں پڑنا شان نبوت یا بزرگی کے خلاف نہیں سمجھتے ۔ نیز ایک آدمی اگر نیک نیتی سے یہ سمجھے کہ فلاں منصب کا میں اہل ہوں اور دوسروں سے یہ کام اچھی طرح بن نہ پڑے گا تو مسلمانوں کی خیر طلبی اور نفع رسانی کی غرض سے اس کی خواہش یا درخواست کر سکتا ہے اور اگر حسب ضرورت اپنے بعض خصال حسنہ اور اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کرنا پڑے تو یہ ناجائز مدح سرائی میں داخل نہیں۔ عبدالرحمٰن بن سمرۃ کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص از خود امارت طلب کرے تو اس کا بار اسی کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ (غیبی اعانت مددگار نہیں ہوتی) یہ اس وقت ہے جب طلب کرنا محض نفس پروری اور جاہ پسندی وغیرہ اغراض کی بناء پر ہو۔ واللہ اعلم
۔
[۸۲]حضرت یوسف علیہ السلام کی حکومت:

جہاں چاہتے اترتے اور جو چاہتے تصرف کرتے۔ گویا ریان بن الولید برائے نام بادشاہ تھا حقیقت میں یوسف علیہ السلام بادشاہی کر رہے تھے اور "عزیز” کہہ کر پکارے جاتے تھے۔ جیسا کہ آگے آئے گا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ بادشاہ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا۔ نیز اسی زمانہ میں عزیز مصر کا انتقال ہوا تو اس کی عورت زلیخا نے آپ سے شادی کر لی۔ واللہ اعلم۔ محدثین اس پر اعتماد نہیں کرتے
۔
[۸۳]آخرت کا اجر بہتر ہے:

جو بھلائی اور نیکی کا راستہ اختیار کرے خدا اس کو دنیا میں بھی میٹھا پھل دیتا ہے ۔ خواہ ثروت و حکومت یا بالذات عیش ، حیات طیبہ ، اور غنائے قلبی ، حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ سب چیزیں عنایت فرمائیں۔ رہا آخرت کا اجر ، سو وہ ایک ایماندار و پرہیزگار کے لئے دنیا کے اجر سے کہیں بہتر ہے۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں ۔ "یہ جواب ہوا ان کے سوال کا کہ اولاد ابراہیم علیہ السلام اس طرح "شام” سے آئی مصر میں اور بیان ہوا کہ بھائیوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو گھر سے دور پھینکا تا ذلیل ہو ۔ اللہ نے عزت دی ۔ اور ملک پر اختیار دیا ۔ ایسا ہی ہوا ہمارے حضرت کو”۔

This entry was posted in سورة الفرقان. Bookmark the permalink.

تبصرہ کریں